من و سلویٰ 


عمیرہ احمد


من وسلویٰ کا بنیادی موضوع رزق حلال ہے۔ بنی اسرائیل پر نازل کی جانے والی نعمتوں میں سے ایک من وسلویٰ تھی۔ من ایک میٹھی دانے دار شے تھی جو آسمان سے رات کو شبنم کی طرح گر کر جم جاتی ۔ سلویٰ ایک بٹیر تھا جو کثیر تعداد میں ان کے علاقے میں آتا اور وہ اسے پکڑ کر کھاتے، بنی اسرائیل چالیس سال تک جلاوطنی کے دور میں یہ آسمانی رزق کھاتے رہے پھر اس سادہ کھانےکی بجائے انواع واقسام کے کھانے چاہتے تھے۔

مجھے من وسلویٰ کے بارے میں پڑھتے ہوئے احساس ہوا کہ بنی اسرائیل کےمن و سلویٰ اور ہمارے رزق حلال میں بہت مماثلت ہے۔ وہ پاکیزہ سادہ کھاناتھا، یہ پاکیزہ سادہ رزق ہے۔ دونوں کا حصول بے حد آسان ہے مگر بنی اسرائیل کے لئے من وسلویٰ پر انحصار کرنا اور ہمارے لئے رزق حلال پر جینا مشکل ہے۔ وہ بنی اسرائیل کی سوچ تھی، یہ ہماری سوچ ہے۔ وہ من وسلویٰ سے ناخوش تھے اور اس کامذاق اڑاتے تھے۔ ناشکری کرتے تھے۔ ان کو انواع واقسام کا رزق چاہیے تھا۔ ہمیں شارٹ کٹ سے کم وقت میں بہت زیادہ پیسہ چاہیے ۔

بنی اسرائیل کی قوم کہتی تھی کہ موسی علیہ السلام کا رب کنجوس ہے جس کے پاس ان کے لئے من و سلویٰ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ ہم آج یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا خداہمیں رزق حلال کے علاوہ کچھ نہ دے کرتنگ کر رہا ہے۔ بنی اسرائیل اپنی اس سوچ اور ناشکری کی وجہ سے مغضوب ہوئی اور ہم۔۔۔۔ یقیناہم مغضوب ہونا نہیں چاہتے ۔ بنی اسرائیل کے ساتھ من وسلویٰ کے معاملے میں نظر آنے والی یہ مماثلت افسوس ناک ہے، شرم ناک ہے یا ہولناک ۔ اس کا فیصلہ ہم سب اپنی اپنی جگہ پر کر سکتے ہیں۔

اور آخر میں بس ایک بات۔۔۔من وسلویٰ کوئی اسلامی کہانی نہیں ہے، نہ ہی یہ کوئی اسلامک اسکالرلی فکشن ہے۔ ایک ایشو کےبارے میں میری ذاتی رائے ہے جو بالکل غلط بھی ہو سکتی ہے۔ میرا علم ناقص ہے، میری عقل محدود اور مجھے ان دونوں پر کوئی گمان نہیں مگر میری نیت میں کوئی خرابی نہیں اور میں اس کے لیے اللہ تعالیٰ کی شکر گزار ہوں۔ تومن وسلویٰ حاضر ہے۔


عمیرہ احمد



ڈاؤن لوڈ کیجئے