إِنَّ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۃ ’’ بے شک آسمانوں اور زمین میں اہلِ ایمان کے لئے اسباق موجود ہیں‘‘۔ (45 جاثیہ۔رکوع 1۔ آیت 3) کائنات کا بغور مطالعہ کرنے سے جہاں لاتعداد قوانینِ،قدرت مثیئتِ ایزدی کے تحت سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں، وہاں ارض و آفاق کی پنہایوں میں مخلوق کے لئے ایک مکمل معاشی نظام کی بین اساسی کڑیاں وسیع تر کائناتی نظام میں منسلک نظر پڑتی ہیں۔ اسلام کا معاشی فلسفہ قدرت کے اسی وسیع تر اور ہمہ گیر فلسفے کی بنیادوں پر مبنی ہو کر اس کے کائناتی اصولوں کی مطابقت میں صورت پذیر ہوتا ہے۔ فلسفہء معاش کا یہ کائناتی نظام دنیا کے کسی بھی مروجہ نظامِ معاش کو جانچنے کے لئے ایک اساسی اور معتبر معیار مہیا کرتا ہے۔ کائناتی نظامِ معاش کا اس جامعیت کے ساتھ مشاہدہ کرنا (کہ اس کی ایک مکمل اور واضح تصویر ذہنِ انسانی پر نقش ہو جائے ) اور انسانیت کا معاشی نظام اسی کائناتی وسیع تر معاشی نظام کی بنیادں پر پر کھڑا کر دینا کسی انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں۔ وہاں تک نہ تو کسی ارسطو ئے زمانہ یاافلاطونِ روزگار کی پہنچ ہے نہ کسی ہکسلے یا ڈارون کی رسائی ہے۔ یہ شرف صرف اور صرف قرآنِ حکیم ہی کے حصے میں آیا ہے۔ ہم نے تاریخِ انسانی کاگوشہ گوشہ چھان مارا، مشاہیرِ زمانہ کے معاشی نظریوں کا بخیہ بخیہ ادھیڑ کر دیکھا ،لیکن کہیں بھی ہمیں قرآنِ حکیم کی دلپذیر جامعیت اور دلنشیں انداز کا نمونہ تو کیا ،پر تو بھی نظر نہیں پڑا۔ اس دلربا حقیقت کے انکشاف پر ہم نے سجدہ ء شکر ادا کیا اور اپنی تحقیق وجستجو میں قرآن و سنت کا ہی سہارا لیا اور اس سہارے نے ہمارا دامنِ مرادگلہائے رنگارنگ اور درہائے آبدار سے بھر دیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کے لئے اس کے احسان مند ہیں کہ اس نے محض اپنی نوازشِ کریمانہ سے علم و حکمت کاایک خزینہ بے بہا ہمیں مفت بخش کر دنیائے فلسفہ کی جگر گداز صحرا نوردیوں اور دلشگاف آبلہ پائیوں کی زحمت سے بچا لیا ہے۔ ورنہ دنیاکے دوسرے فلاسفہ کی طرح ہمارا بھی وہی حال ہوتا کہ عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ کوہکنی میں صرف کر دیا اور نکلاتو چوہا،وہ بھی نیم مردہ ۔ زندہ رہے تو وہم و گمان کی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہے اور جومرے تو اس اقرار کے بعد کہ میں نے یہی جانا کہ کچھ نہ جانا۔ (یوسف جبریل) Back to Conversion Tool
إِنَّ فِیْ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآیَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۃ
ReplyDelete’’ بے شک آسمانوں اور زمین میں اہلِ ایمان کے لئے اسباق موجود ہیں‘‘۔ (45 جاثیہ۔رکوع 1۔ آیت 3)
کائنات کا بغور مطالعہ کرنے سے جہاں لاتعداد قوانینِ،قدرت مثیئتِ ایزدی کے تحت سرگرمِ عمل نظر آتے ہیں، وہاں ارض و آفاق کی پنہایوں میں مخلوق کے لئے ایک مکمل معاشی نظام کی بین اساسی کڑیاں وسیع تر کائناتی نظام میں منسلک نظر پڑتی ہیں۔ اسلام کا معاشی فلسفہ قدرت کے اسی وسیع تر اور ہمہ گیر فلسفے کی بنیادوں پر مبنی ہو کر اس کے کائناتی اصولوں کی مطابقت میں صورت پذیر ہوتا ہے۔ فلسفہء معاش کا یہ کائناتی نظام دنیا کے کسی بھی مروجہ نظامِ معاش کو جانچنے کے لئے ایک اساسی اور معتبر معیار مہیا کرتا ہے۔ کائناتی نظامِ معاش کا اس جامعیت کے ساتھ مشاہدہ کرنا (کہ اس کی ایک مکمل اور واضح تصویر ذہنِ انسانی پر نقش ہو جائے ) اور انسانیت کا معاشی نظام اسی کائناتی وسیع تر معاشی نظام کی بنیادں پر پر کھڑا کر دینا کسی انسانی ذہن کے بس کی بات نہیں۔ وہاں تک نہ تو کسی ارسطو ئے زمانہ یاافلاطونِ روزگار کی پہنچ ہے نہ کسی ہکسلے یا ڈارون کی رسائی ہے۔ یہ شرف صرف اور صرف قرآنِ حکیم ہی کے حصے میں آیا ہے۔ ہم نے تاریخِ انسانی کاگوشہ گوشہ چھان مارا، مشاہیرِ زمانہ کے معاشی نظریوں کا بخیہ بخیہ ادھیڑ کر دیکھا ،لیکن کہیں بھی ہمیں قرآنِ حکیم کی دلپذیر جامعیت اور دلنشیں انداز کا نمونہ تو کیا ،پر تو بھی نظر نہیں پڑا۔ اس دلربا حقیقت کے انکشاف پر ہم نے سجدہ ء شکر ادا کیا اور اپنی تحقیق وجستجو میں قرآن و سنت کا ہی سہارا لیا اور اس سہارے نے ہمارا دامنِ مرادگلہائے رنگارنگ اور درہائے آبدار سے بھر دیا ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ کے اس احسانِ عظیم کے لئے اس کے احسان مند ہیں کہ اس نے محض اپنی نوازشِ کریمانہ سے علم و حکمت کاایک خزینہ بے بہا ہمیں مفت بخش کر دنیائے فلسفہ کی جگر گداز صحرا نوردیوں اور دلشگاف آبلہ پائیوں کی زحمت سے بچا لیا ہے۔ ورنہ دنیاکے دوسرے فلاسفہ کی طرح ہمارا بھی وہی حال ہوتا کہ عمرِ عزیز کا بیشتر حصہ کوہکنی میں صرف کر دیا اور نکلاتو چوہا،وہ بھی نیم مردہ ۔ زندہ رہے تو وہم و گمان کی بھول بھلیوں میں سرگرداں رہے اور جومرے تو اس اقرار کے بعد کہ میں نے یہی جانا کہ کچھ نہ جانا۔ (یوسف جبریل)
Back to Conversion Tool